ضروی تو نہیں جتنا میں اسکو
Poet: AIK BANDA By: AIK BANDA, Londonضروی تو نہیں جتنا میں اسکو
اتنا وہ مجھ کو سو چتا تو ھو گا
پل بھر میں کیسے مان جاؤں
وہ کچھ نہ کچھ سوچتا تو ھو گا
وہ گزرا ھوا وقت
وہ صبح و شام کی قربتیں
وہ ماضی کی یادیں
وہ کچھ نہ کچھ سوچتا تو ھو گا
وہ شروع شروع کاشرمانا
اسکا میرے سامنے نہ آنا
وہ میرا حجاب سے نظریں نہ ملا نا
وہ کچھ نہ کچھ سوچتا تو ھو گا
وہ میرے بغیراداس رھنا
دیر ھونے پہ بےچین رھنا
ملنےپر مسکراھٹ پھیلنا
وہ کچھ نہ کچھ سوچتا تو ھو گا
وہ زندگی کے حادثے
وہ چھوٹی چوٹی شرارتیں
وہ بیمار ھونے پر اسکا تڑپنا
وہ کچھ نہ کچھ سوچتا تو ھو گا
وہ گھنٹوں گھنٹوں کلام نہ کرنا
کن آنکھیوں سےایک دوسرے کو دیکھنا
پھر بلا وجہ خودی مسکرا دینا
وہ کچھ نہ کچھ سوچتا تو ھو گا
اے پڑھنے والے تو کیوں حیراں ھے
یہ تو سب کی زندگی کا یکساں ساماں ھے
بار بار پڑھ کر تو بھی
وہ کچھ نہ کچھ سوچتا تو ھو گا
معذرت کے ساتھ آخری شعر میں لفظ تو کا استعمال شعر کا وزن برقرار رکھنے کے لیے کیا گیا ھے یہاں اس لفظ سے مراد آپ لیا جائے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






