کتنی معصوم تھی طلب اس کی
کس قدر دل گُداز خواہش تھی
”آج کے دن تمھارے ہاتھوں میں
میری خاطر ہو اک گلاب کا پھول
اور تمھارے لبوں پہ اک بوسہ
میری آنکھوں پہ ثبت ہونے کو“
اس نے جس دم کہا اسی لمحے
نارسائی کا خار ایسا چبھا
میرے ہاتھوں سے خون رِسنے لگا
تشنگی یوں بڑھی کے ہونٹوں پر
پیاس کا صحرا آکے بسنے لگا