طوفاں سے ، بلاؤں سے ، مصیبت سے لڑا ہوں
مدت سے ترے شہر کی گلیوں میں کھڑا ہوں
میخانہ گیا ، مے بھی گئی،تُو نہ رہا پاس
ایسے ہی ترے عشق میں برباد ہُوا ہوں
اِک عمر دیا میں نے ترے پیار کا پہرہ
اِک عمر تری یاد میں راتوں کو جگا ہوں
تو گردشِ دوراں سے بدلتا ہی رہا ہے
میں جانِ وفا اب بھی وہی پر ہی پڑا ہوں
میں پھول ہوں، خوشبو ہوں، کہ ہوں خارِ گُلستاں
برسوں سے ہی انجان منازل سے جُڑا ہوں
روشن ہے خیالوں میں مرے صبحِ بہاراں
بیشک میں ابھی دورِ خزاں میں ہی گھرا ہوں
عاکف وہ مرا دیکھنے آئیں ہیں تماشہ
اور پوچھتے ہیں مجھ سے کہ اچھا ہوں بُرا ہوں