طوفاں کا وہم ہے نہ سمندر کا خوف ہے
مجھ میں چھپا ہوا مرے اندر کا خوف ہے
امید جس سے زندہ تھی وہ فصل جل گئی
جو رہن رکھ چکا ہوں اسی گھر کا خوف ہے
میرے بدن میں جس سے دراڑیں سی پڑ گئیں
آنکھوں میں آج بھی اسی منظر کا خوف ہے
آواز دائروں میں مقید سی ہو گئی
ہر اک صدا کو گنبد بے در کا خوف ہے
میں بھی اسی قبیلے کا اک فرد ہوں نذیرؔ
دستار سے زیادہ جسے سر کا خوف ہے