طے مسافت ہوئی قدر دانی کے ساتھ
بڑھ گیا ہے کرایہ گرانی کے ساتھ
راستے میں پڑا تھا ملا ہے مجھے
جس کا ہو پرس لے لے نشانی کے ساتھ
اب ضرورت پڑی پاس کچھ بھی نہیں
قرض دے دو مرا مہربانی کے ساتھ
روز الزام لگتے ہیں کہتی ہے وہ
اب تعلق ہے تیرا فلانی کے ساتھ
سوز ہجراں میں تنہا نہیں رہ سکا
وہ لگا رونے آہ و فغانی کے ساتھ
طنطنہ عشق میں اچھا لگتا نہیں
اپنے بدلو نہج گل فشانی کے ساتھ
کام اپنے سے مالی تو واقف نہیں
ہونا اچھا نہیں باغبانی کے ساتھ
کوئی ہوئی غلط فہمی مرشد تمہیں
کوئی چکر نہیں ہے دوانی کے ساتھ
آج شہزاد موجود ہم میں نہیں
مر گیا وہ قضائے گہانی کے ساتھ