ظلمت تراش دستِ ستم گر نہیں ہوں میں
اک عَبْدِ کردگار ,ہوں کافر نہیں ہُوں میں
جیون کے پھول جس سے کھلیں میں ہوں وہ صبا
گل ہوں چراغ جس سے وہ صر صر نہیں ہوں میں
دریا کو آبشار کو جھیلوں کو ہے خبر
ساگر بکف ہوں موج۔ سمندر نہیں ہوں میں
تیری خوشی کے واسطے قابیل کی طرح
ہابیل مار دوں وہ برادر نہیں ہوں میں
جامہ سرا ہوں دل سے تراشے ہزار بیت
جو بت تراشتا ہے وہ آزر نہیں ہوں میں
میرا وجود عشقِ حقیقی ہے مرتضیٰ
رتبے میں اک ملنگ سے کمتر نہیں ہُوں میں