عاشقانہ مزاج پایا ہے
اک مرض لا علاج پایا ہے
جتنے سِمٹے ہیں فاصلے اُتنا
دوریوں نے رواج پایا ہے
رنگ اور خوشبوؤں سے دلداری
تتلیوں سا مزاج پایا ہے
تیرگی میں کرن کرن ہم لوگ
جگنوؤں سے خراج پایا ہے
عاشقی اور قرار چاہے دل
کیسا سادہ مزاج پایا ہے
وصل ممکن نظر نہیں آتا
کتنا ظالم سماج پایا ہے
روئے کچھ اسقدر کہ اشکوں نے
خون سے امتزاج پایا ہے
شعر میرے کریں چھنن چھن چھن
گھنگروؤں سا مزاج پایا ہے
ہم تغافل سے جاں بلب تھے ندیم
پر ، ستم سے علاج پایا ہے