عاشقی روگ ہے، اس میں کیا سوگ ہے
Poet: تنہاؔ لائلپوری By: Tanha Lyallpuri, Faisalabadعاشقی روگ ہے، اس میں کیا سوگ ہے، جان لے کر ہی جائے گا آزار یہ
کہہ دیا ہے طبیبوں نے بھی دیکھ کر، چند دن کا ہے مہمان بیمار یہ
جان پر کھیل جانے کی بات آئے گی، اس کے کوچے میں ایسی بھی رات آئے گی
کھیلی جائیں گی جب خون کی ہولیاں، دیکھ کر بھاگ جائیں گے اغیار یہ
خون جائے گا میرا ترے بام تک، لیکن آئے گا تجھ پر نہ الزام تک
تیرے ہاتھوں سے یوں قتل ہو گا مرا، سب کہیں گے ہے قصہ پُر اسرار یہ
رخ کرو گے کبھی تم بھی میخانے کا، راستہ جب رہے گا نہ جھٹلانے کا
بوجھ ہے پارسائی کا سر پر بہت، شیخ! کب تک سنبھالے گی دستار یہ
وصل کی رات مجھ سے نہ شرماؤ یوں، پاس آنے پہ میرے نہ گھبراؤ یوں
نرم کلیاں مجھے توڑنی تو نہیں، چوم کر چھوڑ دوں گا میں رخسار یہ
اتنی غفلت برتنا بھی اچھا نہیں، اپنے عاشق کی کچھ فکر بھی کر کہیں
تیرے در پر پڑا دل میں حسرت لیے، مر ہی جائے نہ مشتاقِ دیدار یہ
چھوڑ دے ہجر کی رات تنہاؔ مجھے، شہر میں مت کر اے چاند رسوا مجھے
میرے سر پر کھڑا ہو کے سنتا ہے کیا، تیرے کس کام کے میرے اشعار یہ
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






