عام لوگوں میں کوئی اپنی کہانی بھی نہ کی
میں نے ہجرت بھی نہ کی نقل مکانی بھی نہ کی
ولولے آج بھی ویسے ہیں مرے سینے میں
ختم جزبوں کی کبھی میں نے روانی بھی نہیں کی
جس پہ ہم لوگ مرے جاتے ہیں اس دنیا میں
اس کے گلشن میں کوئی شام سہانی بھی نہ کی
پھر بھی الفاط اتر جاتے ہیں سب کے دل میں
عمر بھر چپ ہی رہی شعلہ بیانی بھی نہیں کی
دن تو خوشبو کی معیت میں گزارا میں نے
اور ناراض کبھی رات کی رانی بھی نہیں کی
وشمہ کمرے میں تری یاد کی ہیں تصویریں
دور آنکھوں سے کوئی میں نے نشانی بھی نہ کی