عجب تصور حسن و جمال رکھتا ہے
کہیں بھی جاؤں، وہ میرا خیال رکھتا ہے
سلگتی ریت پہ تنہا اداس لمحوں میں
مجھے کسی کا تصور نہال رکھتا ہے
تمہارے شہر کے منظر حسین ہیں لیکن
ہمارا گائوں بھی حسن و جمال رکھتا ہے
اِسی لئے میں جلاتا نہیں چراغ کوئی
تیرا خیال ہی گھر کو اُجال رکھتا ہے
کوئی تو ہے جو فریبِ جمال سے یارو
تمام شہر کو اُلجھن میں ڈال رکھتا ہے
میں دیکھنے میں بہت شاد شاد ہوں لیکن
وہ درد ہے کہ کلیجا نکال رکھتا ہے
کرم کسی کا میرے ساتھ ساتھ ہے خادمُ
قدم قدم پہ جو مجھ کو سنبھال رکھتا ہے