عجیب رت ہے درختوں کی بے زبان میں تھا
دیار شام میں آہوں کے مہربان میں تھا
کہ جیسے ساتھ ترے زندگی گزرتی ہو
ترا خیال مرے ساتھ نیم جان میں تھا
ابھی نہ توڑا گیا مجھ سے قید ہستی کو
ہم اس جنون سے آگے وہ امتحان میں تھا
وہ شوق تیز روی ہے کہ دیکھتا ہے جہاں
زمیں پہ آگ لگی جو ہے آسمان میں تھا
حقیقتوں کے مقابل ٹھہر نہیں سکتی
پرانی فکر بھی جھوٹےہی وہ گمان میں تھا
یقین ان کو دلاؤں چمکتے سورج کا
حصار شب میں جو سہمے ہوئے مکان میں تھا
لبوں پہ جس کے مسلسل پکار وشمہ تھی
اسی کی آنکھ سے دریا بھی اک بیان میں تھا