عجیب ہے اپنی خوشی مگر دکھ بھی ہوتا ہے
جہاں سے کٹ جاؤ بھی تو ایک خوش رہتا ہے
وقت کی موروثی سے بدلتے ہیں مزاج
لیکن بدلنے والوں کو آخر کیا رُخ ملتا ہے
ملائم احساسوں کو میں بڑی سزا دی
آج میری صداؤں کو خدا بھی نہیں مانتا ہے
تنہائی ملی تو خاموشی نے ارادے بدل دیئے
اب سوچتے چلو کہ دکھ سے کیا نتیجہ نکلتا ہے
ہم تو حسرتوں کے سرپرست گرے تھے
پتھروں کے آگے جھکنے سے کیا ملتا ہے
اپنے رہن کو کہیں محبت کا گھر ڈھونڈلو
سنتوشؔ جیون تو فقط اک بار ملتا ہے