وحشت جنوں حد سے بڑھ جائے نہ کہیں
یہ دیوانگی کوئی گل اب کھلائے نہ کہیں
تیری نفرتیں یہ تیری بےگانگی ظالم
احساس کے نازک تار توڑ ڈالے نہ کہیں
دل جلانا حسینوں کا چلن ہی سہی
پر دل لگی روگ تیرا بن جائے نہ کہیں
ہر ستم پر دعا دی ہے تجھ کو مگر
ہر دعا بدعا میں بدل جائے نہ کہیں
احساس کے پرتو پر ایک دیا ٹمٹماتا ہوا
نرم ہوا کے جھونکے سے بجھ جائے نہ کہیں
دل ناتواں پر کہہ دو فرح اسقدر ستم نہ ڈھائیں وہ
شاعر میرا حساس ہے بہت مر ہی جائے نہ کہیں