عشق بھی کرتے ہیں رسوائی سے گھبراتے ہیں
خود بھی ڈرتے ہیں اور ہم کو بھی ڈراتے ہیں
اس زمانے میں کوئی چین سے کب جیتا ہے
رنج و کلفت غم و آلام سب ہی تو اٹھاتے ہیں
ایک تم ہی نہیں دنیا میں اور بھی ہونگے
کانٹوں میں پھول کی صورت مسکراتے ہیں
زخموں کو دل میں چھپا کے جیتے ہیں
تنہا روتے ہیں اور بزم کو ہنساتے ہیں
آدمی وہ نہیں جو سب کو حال دل کہہ دیں
دکھ کہتے ہوئے اوروں کو بھی رلاتے ہیں
نامرادی ہے فقط ان کا مقدر پیارے
زمیں پہ فتنہ و فساد جو پھیلاتے ہیں
دنیا قائم ہے ایسے بےمثال لوگوں سے
خاک ہو کر جو امن کے گل کھلاتے ہیں
پھولوں کی زندگی دو دن کی سہی زندگی ہے
اپنی خوشبو سے وہ گلشن کو تو مہکاتے ہیں
تلاش حق کی جستجو کریں صحراؤں میں
اپنی جنت بیابانوں میں جو بساتے ہیں
اپنا دامن حرص و ہوس سے بچاتے ہیں
یہی منعم ہیں کہ جو مال حق کماتے ہیں
گرچہ فن سخن طرازی خوب ہے عظمٰی
کم سخن لوگ بھی فرزانے مانے جاتے ہیں