درد عادت کی طرح مجھ میں پنپتا جائے
جینا کچھ سال سے بے کار سا بنتا جائے
ایسے لگتا ہے کہ دیوار کھڑی چار طرف
میرا سامع مری آواز پلٹتا جائے
درد سرمایہ اگر ہے تو میں خوش قسمت ہوں
عمر کے ساتھ یہ سرمایہ بھی بڑھتا جائے
کتنی بے مایہ ہے انسان کی ہستی ہوگو
دم نکل جائے تو پھر نام بھی مٹتا جائے
عشق بس خواب کی حد میں ہی بھلا لگتا ہے
عشق تعبیر کو چھو لے تو بدلتا جائے