عشق تم جس کی تمنائی تھیں
کسی فردوس کا خوش رنگ پرندہ تو نہ تھا
یہ ہے تاریخ سے پہلے کا وہ اندھا عفریت
جو میرے جسم میں در آیا ہے
یہ درندہ جو میرے جسم کی دیواروں کو
اپنے آلودہ نم ہاتھوں سے سہلاتا ہے
اندھے ہاتھوں سے جو ہر لحظ مجھے چھوتا ہے
گرم سانسیں جو شب وروز بھرے جاتا ہے
بھاری پیکر بہت آہستہ سے جنباں ہے مگر
مجھ کو معلوم ہے کس جست کی ہے اس میں تڑپ
بڑی محتاط، بہت آہستہ
انگلیاں پھیر رہا ہے کہ نشاں پائے کرئی
ڈھونڈتا ہے کوئی دروازہ کوئی راہ ملے