اب پھر انجامِ محبت سے کیوں ڈریے صاحب
عِشق کرنا ہے تو پھر عِشق ہی کریے صاحب
اُنکی بَستی سے نِکل کر بھی تو مَرنا ہے ہمیں
اُنکی بستی میں ہی پھر کیوں نہ مریے صاحب
عشق کرتے ہیں کوئی غلط کام نہیں
تمہیں اعلان بھی کرنا ہے تو کریے صاحب
یہ سنا ہے کہ بڑے چارہ ساز ہیں آپ
دو زخم دل کے ہمارے بھی تو بھریے صاحب
پہنچ کر کوچہ محبوب میں ہی ہم دم لیں گے
تمہیں آرام اگر کرنا ہے تو کریے صاحب
ہے محبت کے بغیر ناکام سا جینا شاہ میرؔ
عشق فقط عشق فقط عشق ہی کریے صاحب