اپنے دیئے ہوئے غم کو غم سمجھ لینا
عشق میں ہوا ہے ستم سمجھ لینا
سکت نہیں آرزو کی سیوا کے لئے
اس لئے رکے گئے ہیں قدم سمجھ لینا
لبریز ہوتا ہے جب کسی آنکھ کا ظرف
ہوائیں ہو جاتی ہیں نم سمجھ لینا
اپنے پاس رکھ کر سانسوں کی مہک
دے دیا ہے اک جسم سمجھ لینا
طوفاں میں بھی جلتی ہے محبت کی شمع
ہو اگر دل میں ذوق سمجھ لینا
کٹ تو جائیں گے تیرے ہجر میں دن خالد
نشاں چھوڑ جائیں گے زخم سمجھ لینا