خود اپنے خوں سے رہِ یار کو سنوار آئے
وہ رہروانِ رہِ عشق ، جب بہار آئے
حضورِ یار ہوئی جب طلب دیوانوں کی
دریدہ دامن و دل لے کے جاں نثار آئے
کسی نے عشق، کسی نے کہا جنون و فسوں
اِدھر اُدھر سے کئی القاب میرے یار آئے
ڈٹے رہے تیرے مسلک پہ تیرے شیدائی
گو ناصحوں کے سندیسے بھی بے شمار آئے
جنون والوں پہ گزرتی ہے جو وہی گزری
سو جُھومتے ناچتے نکلے تھے اشکبار آئے
مگر دیوانوں کا دو چند ہو گیا ہے جنوں
طوافِ کوچہء جاناں ، کو بار بار آئے
قبائیں چاک گلوں کی اسی جنوں کے سبب
فضا میں نشہ ہی نشہ ہو ، جب بہار آئے
نہ، کیا سبب ہے درِ یار چھٹ سکا ،گرچہ
سدا ، مسافرانِ رہِ یار دل فگار آئے
قضا بھی آکے ٹھر سی گئی دیوانوں کی
کہ لے کے چل سکے انہیں، کچھ دیر گر قرار آئے