عشق ہے تسخیرِ جاں، سرگشتگی کا بابِ نو
دھوپ میں تسلیم کا سایہ، جنوں کا خوابِ نو
روح میں تحلیل جیسے کرب کا سازِ سکوں
جسم میں برپا کرے آشوب کا اک حجابِ نو
کون جانے، کون سمجھے دل کی وحشت کی گتھی
اک فسردہ شامِ غم، اور اشک کا محرابِ نو
عشق وہ یاقوت جس کے رنگ میں رنگا جہاں
عشق وہ زنجیر جو باندھے خرد سے کتابِ نو
ہر نفس مانندِ ساغر خم لیے گھائل ہوا
دل کے آنگن میں اتر آیا وفا کا ماہتابِ نو