عشق پہ اعتبار کر بیٹھے
جان اپنی نثار کر بیٹھے
ایک گفتار کے تو غازی تھے
لفط سارے شمار کر بیٹھے
جانے کیوں موت دور رہتی ہے
پل پل انتطار کر بیٹھے
جانتے تھے کہ جان جائے گی
سب بے اختیار کر بیٹھے
جان کی آرزو نہیں رکھتے
جان سے اتنا پیار کر بیٹھے
جان لے گی سجاد دنیا بھی
جیت کے اپنی ہار کر بیٹھے