عشق کی عداوت سے ہوشیار کون رہتا ہے
ہاں طوفاں آنے سے پہلے تیار کون رہتا ہے
سبھی روندتے ہیں وقت تلے اپنا جیون
کل قابل تزلزل ہوگی مگر اعتبار کون کرتا ہے
ہم اپنی فوقیت سے تو متبدل نہیں ہوسکتے
وہ کسی واجبیت سے بھی ملیں انکار کون کرتا ہے
آدمی میں تجاوز بغض سے بھی آسکتا ہے
یہ تو عمل کے رنگ ہیں آزمودہ گار کون ہوتا ہے
کون ہے جو اپنے اوپر بھی نگراں رہا ہو
دوسروں کی سپردگی میں ہمکنار کون رہتا ہے
کچھ مفید تقلید ہم بھی جانتے ہیں سنتوشؔ
مگر یونہی مجردوں پہ دھیان کون دھرتا ہے