عشق کی مسافت میں ، ہم کہاں نکل آۓ
آسماں کی چاہت میں، ہم کہاں نکل آۓ
منزلوں سے بھی آگے، ایک اور منزل ہے
قربتوں کی ساعت میں، ہم کہاں نکل آۓ
فاصلوں کے صحرا میں،ظلمتوں کا دریا ہے
عہدِ نو کی فرصت میں، ہم کہاں نکل آۓ
چُپ جو سادھ لیتے ہم ، زندگی گُزر جاتی
بولنے کی عادت میں، ہم کہاں نکل آۓ
ایک ہم ہیں اور قاسم، دُور تک نہیں کوئی
اِس جنوں کی صورت میں ، ہم کہاں نکل آۓ