عمر گزری ہے اگر ساری وفا دیتے ہوئے
ہونٹ رُک جاتے ہیں کیوں اُس کو دعا دیتے ہوئے
وقت کے ساتھ پرندوں نے بھی فطرت بدلی
خود بھی سو جاتے ہیں بچوں کو غذا دیتے ہوئے
یہ محبت بھی تری طرح منافق تو نہیں
روز ملتی ہے مجھے زخم نیا دیتے ہوئے
وقت پڑنے پہ کبھی کام بھی آ سکتا ہے
سوچنا راہ میں مسافر کو دغا دیتے ہوئے
حبس ہے یا کہ ہے ماحول نزاع کی زد میں
پیڑ کیوں ہانپنے لگتے ہیں ہوا دیتے ہئے
اب بھی ہے دور ِ یزیدی وہی کوفہ وہی شام
لوگ ڈر جاتے ہیں عورت کو ردا دیتے ہوئے
سانسیں جتنی ہیں محشر کا ہیں وہ قرض عقیل
زندگی لیتی ہے محصول بقا دیتے ہوئے