زندگی کا فلسفہ کھل کر عیاں ہونے لگا
یوں میں موت اور زندگی کے درمیاں ہونے لگا
دیکھتا ہوں اب میں ان کو غیروں کے بھی روبرو
ساری چاہت کا مری پھر یوں زیاں ہونے لگا
کچھ مسائل کے سبب ہم کو بجھڑنا کیا پڑا
ان کے دل میں راز تھا جو وہ عیاں ہونے لگا
تھا اگر یہ جرم تو وہ بھی شریکِ جرم تھا
جان تھا پہلے وہ جو اب جانِ جاں ہونے لگا
چھوڑ دے گا وہ بھی مجھ کو اور لوگوں کی طرح
جانے کیوں اب دل کو میرے یہ گماں ہونے لگا
کیں تو تھیں کوشش بہت پر رائیگاں سب ہی ہوئیں
درد تھا جتنا بھی دل میں سب عیاں ہونے لگا
کب تلک ارشیؔ رہو گے بے حسوں کے درمیاں
دوست ہی دشمن تمہارا اب یہاں ہونے لگا