عید گزر گئی اُداسی رہ گئی
جان خوشیوں کی پیاسی رہ گئی
روزِ عید وہ تو مکراتے رہے
مجبور ہم آنسو بہاتے رہے
پہن کے نئے کپڑے کہاں جاتے
بیگانوں شہر میں کِسے بُلاتے
روزِ عید گھر میں سُونا پن تھ
میں تھ درد تھ اور تنہا پن تھ
وہ پتھر میرے آنسوئوں سے نہ پلگ
عید گزر گئی میرا چاند مگر نہ نکل
اندھیرے نے میرا دامن نہ چھوڑا یارو
وہ ایسا گیا کہ پھر منہ نہ موڑا یارو
نہال ہر آس میں نے انتظار میں ہار دی
اِ س بار بھی رو کے میں نے عید گزار دی