حیات نو کے صحیفوں کو چاک کر ڈالا
جلا کے شہر محبت کو خاک کر ڈالا
وہ اس کمال کا غارت گرِ جہان نکلا
کتاب لوح سے تمدن کو صاف کر ڈالا
قصور مان کے معافی جو مانگ لی اس نے
یہ نیک کام تھا اس نے ثواب کر ڈالا
خوشی منائے گی دنیا اشہر کی موت کے دن
سبھی کا اس نے تھا جینا عذاب کر ڈالا
اشہر کی یاری سے بچنا کے لوگ کہتے ہیں
یہ وہ ہے جس نے زمانہ خراب کر ڈالا