غزل
Poet: عدیل الرحمن سائر By: Adeel Ur Rehman sair, Sargodhaمیرے پاس تھا تُو، مگر میرا نہ تھا
یوں آنکھیں پھیر لے گا سوچا نہ تھا
وفا کے سبھی معنی وہ جانتا تھا
مگر آنکھوں میں کوئی جذبہ نہ تھا
تیرے لیے سب کچھ بھلا بیٹھے ہم
پھر بھی تُو کسی طور ہمارا نہ تھا
جب تُو گیا، تو یوں ٹوٹا اندر
جیسے مقدر میں کچھ بچا نہ تھا
کیوں ہر قدم پر بدلتا رہا وہ
اس کو یاد کوئی وعدہ نہ تھا؟
چاہا تھا تُو بھی بس اتنا ہی چاہے
پر تُو نے مجھ کو کبھی چاہا نہ تھا
کتنی دعائیں مانگی تھیں تیرے لیے
مگر تو شاید نصیب میں لکھا نہ تھا
اک بار تو بھی پلٹ کر کہتا
ہجر کا فیصلہ بس تمہارا نہ تھا
کہنے کو تھی باتیں بے شمار دل میں
مت سوچ تجھ پر بھروسہ نہ تھا
یادوں نے ہر موڑ پہ آ کر روکا
اس کو دل نے مگر بھلایا نہ تھا
تم چلے جاؤ یوں تنہا چھوڑ کر
ایسا تو میرا کوئی ارادہ نہ تھا
ہجر کی راتوں میں بھی یہ ظرف رکھا
پکارا تجھ کو، مگر نام تیرا لیا نہ تھا
لوٹ آتا، تو شاید معاف بھی کردیتا
ہمارے صبر کا دامن اتنا چھوٹا نہ تھا
تیری نظر سے گر کر بھی سنبھل گئے
یہ ہنر ہر کسی کے بس کا نہ تھا
سائر اسے کھونے کا غم تو رہا
مگر اس کے جانے کا گلہ نہ تھا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






