غزل

Poet: Adeel Sair By: Adeel Ur Rehman sair, Sargodha

کب سے بول رہا ہوں کوئی سنے تو بات بنے
میں بھی سناؤں، وہ حال اپنا کہے تو بات بنے

اک عمر سے اس کے خیالوں میں ہیں ہم
وہ بھی نظر بھر کے دیکھے تو بات بنے

ہم تو تنہا ہیں اور تنہائی ہی ہمسفر
وہ بھی کبھی ساتھ دے تو بات بنے

سب درد سہہ لیے چھوٹی سی عمر میں
اس تجربے سے وہ بھی گزرے تو بات بنے

اسے کہنا مسکراتے چہرے سے دھوکا نہ کھا
وہ بھی کبھی اندر جھانکے تو بات بنے

خود کو سچ کہہ کر فریب نہ دے
وہ بھی آئینے سے آنکھ ملائے تو بات بنے

ملتے ہیں سبھی، محبت کے دعویدار بہت
کوئی ہم کو بھی مخلص ملے، تو بات بنے

رشتے تو بن جاتے ہیں لمحوں میں اکثر
کوئی عمروں تک ساتھ نبھائے، تو بات بنے

نظریں تو سبھی پڑھ لیتے ہیں چہروں سے
کوئی دل کے اندر اُتر آئے، تو بات بنے

زباں سے کہہ دینا ہی محبت نہیں ہوتی
خاموش نظروں سے سمجھائے، تو بات بنے

میں نے تو سب گلے شکوے بھلا دیے "سائر"
وہ بھی کبھی انا کو گرائے، تو بات بنے

Rate it:
Views: 8
17 Sep, 2025
More Love / Romantic Poetry