غزل

Poet: ارسلان احمد عاکف By: Arsalan Ahmed Akif, Umerkot

اے مہرو ہم نشیں ہو کہ بادِ بریں چلے
جی کو سکوں بھی ہو رگِ جاں بھی کہیں چلے

جب تُو نظر میں آئے تو سب دِل نشیں چلے
دِل کے کنارِ جاں پہ کوئی نغمہ زِیں چلے

آنکھوں میں جِھلملائے وہ چہرہ گلاب سا
جیسے صبا کے ساتھ ہی خوشبو حسیں چلے

چاندی سی رات چُپ کے سفر میں وہ ہم قدم
میں بھی ٹھہر کے جاؤں کہ وہ بھی یہیں چلے

آئے تھے ہم نمود و نُمائش سے بزم میں
ہو کے اسیرِ گیسوئے پُر عنبریں چلے

چہرے پہ اُس کے نور کی بارش اتر گئی
یُوں دل کِھلا کہ جیسے زمیں پر حسیں چلے

ہائے وہ پر خمار نگاہیں تری کہ ہم
ایسے ہوئے اسیر کہ زیرِ نگیں چلے

ہر ایک حرفِ نام میں خوشبو بھری ہوئی
جیسے نسیمِ صبح میں مے انگبیں چلے

لمحے ٹھہر گئے تری باتوں کے سلسلے
جیسے سکوں کا قافلہ دل میں کہیں چلے

چاہت کے رقص میں یہ فضا بھی مہک اٹھی
یوں لگ رہا ہے عشق زمیں سے بریں چلے

عاکف خیالِ یار میں کھویا ہوں رات دن
دیکھو یہ عشق ہے کہ یہ دنیا یہیں چلے

Rate it:
Views: 3
15 Oct, 2025
More Love / Romantic Poetry