غزل
Poet: محمد اسدؔ علی By: M Asad ali, Sargodhaدل میں اک آہِ جگر سوزِ وفا رہتا ہے
ہم پہ سایہ تری یادوں کا صدا رہتا ہے
چشمِ گریاں میں تری دید کا نقشا اب تک
مثلِ مژگاں کوئی پُر نُور ادا رہتا ہے
خاک پر سجدہ کیا ، دل نہ سنبھل پایا ہے
عشق میں غم کا ہی بس سلسلہ اب رہتا ہے
زخمِ دل بھر بھی گیا، درد مگر کم نہ ہوا
اک تپش دل کے اںدر اب تو چھپا رہتا ہے
حُسن تیرا جو نظر آئے تو دل کہتا ہے
یہ جہاں خواب ہے، باقی تو وہا رہتا ہے
بزمِ عالم میں ترا نام ہی تسکینِ دل
ذکرِ محبوب میں اک اجتبا سا رہتا ہے
سوزِ الفت سے مرا دل کبھی خالی نہ ہوا
آہ میں رنگِ دعا کی نوا سا رہتا ہے
نقشِ پائے تو ملے کعبۂ دل میں ہی میاں
یہ بھی اک طور کا فیضِ خدا سا رہتا ہے
عشق میں صبر کی منزل پہ جو پہنچا ہے اسدؔ
اس کے اندر بھی کوئی مبتلا ہی رہتا ہے
دل کے ہر داغ میں اک نُور سا چمکا ہے ابھی
یوں لگے جیسے وہی دل میں جلا رہتا ہے
یہ اسدؔ کہتا کہ ہر زخم ہے سرمایہء عشق
جس کو چاہا، وہی دل میں بسا سا رہتا ہے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






