غزل

Poet: محمد اسدؔ علی By: M Asad ali, Sargodha

دل میں اک آہِ جگر سوزِ وفا رہتا ہے
ہم پہ سایہ تری یادوں کا صدا رہتا ہے

چشمِ گریاں میں تری دید کا نقشا اب تک
مثلِ مژگاں کوئی پُر نُور ادا رہتا ہے

خاک پر سجدہ کیا ، دل نہ سنبھل پایا ہے
عشق میں غم کا ہی بس سلسلہ اب رہتا ہے

زخمِ دل بھر بھی گیا، درد مگر کم نہ ہوا
اک تپش دل کے اںدر اب تو چھپا رہتا ہے

حُسن تیرا جو نظر آئے تو دل کہتا ہے
یہ جہاں خواب ہے، باقی تو وہا رہتا ہے

بزمِ عالم میں ترا نام ہی تسکینِ دل
ذکرِ محبوب میں اک اجتبا سا رہتا ہے

سوزِ الفت سے مرا دل کبھی خالی نہ ہوا
آہ میں رنگِ دعا کی نوا سا رہتا ہے

نقشِ پائے تو ملے کعبۂ دل میں ہی میاں
یہ بھی اک طور کا فیضِ خدا سا رہتا ہے

عشق میں صبر کی منزل پہ جو پہنچا ہے اسدؔ
اس کے اندر بھی کوئی مبتلا ہی رہتا ہے

دل کے ہر داغ میں اک نُور سا چمکا ہے ابھی
یوں لگے جیسے وہی دل میں جلا رہتا ہے

یہ اسدؔ کہتا کہ ہر زخم ہے سرمایہء عشق
جس کو چاہا، وہی دل میں بسا سا رہتا ہے

Rate it:
Views: 4
23 Oct, 2025
More Love / Romantic Poetry