پیکر تھا وَفاؤں کا جَفا دینے لگا ہے
کیوں اپنے وہ ماضی کو دَغا دینے لگا ہے
اک دوست بنایا تھا جو دُنیا سے جُدا سا
اوروں سے وہ دُکھ بھی تو جُدا دینے لگا ہے
اُس نے جو مرے نام کی تنہائ کی ذلت
کس جُرم کی وہ مُجھکو سَزا دینے لگا ہے
حالات سے مَجبُور ہے اندھا بھی بےچارہ
جو بھیک کی بہروں میں صَدا دینے لگا ہے
وہ کیسے بَھلا چھوڑ دیں پتھر کی عبادت
رزق اُن کو جو مندر میں خُدا دینے لگا ہے
اَب تو مُجھے دُنیا سے اُٹھا لے مرے مولٰی
ہر شخص جو مَرنے کی دُعا دینے لگا ہے
کُچھ دُور نہیں سَر ہو سَناں پر ترا باقرؔ
مَنصُور کے حق میں جو صَدا دینے لگا ہے