غزل کا حسن ہے اور گیت کا شباب ہے وہ
نشہ ہے جس میں سخن کا وہی شراب ہے وہ
اسے نہ دیکھ مہکتا ہوا گلاب ہے وہ
نہ جانے کتنی نگاہوں کا انتخاب ہے وہ
مثال مل نہ سکی کائنات میں اس کی
جواب اس کا نہیں کوئی لا جواب ہے وہ
مری ان آنکھوں کو تعبیر مل نہیں پاتی
جسے میں دیکھتا رہتا ہوں ایسا خواب ہے وہ
نہ جانے کتنے حجابوں میں وہ چھپا ہے مگر
نگاہ دل سے جو دیکھوں تو بے حجاب ہے وہ
اجالے اپنے لٹا کر وہ ڈوب جائے گا
حسین صبح کا رخشندہ آفتاب ہے وہ
وہ مجھ سے پوچھنے آیا ہے میرا حال افضلؔ
جسے بتا نہ سکوں دل میں اضطراب ہے وہ