رات خوابوں میں جو آتا ہے چلا جاتا ہے
یوں مرے دل کو جلاتا ہے چلا جاتا ہے
ایسا ظالم ہے کسی بزم میں مل جاۓ تو
مجھ پہ لوگوں کو ہنساتا ہے چلا جاتا ہے
کوئی سنتا ہی نہیں مجھ سے مرا درد کبھی
جو بھی آتا ہے ستاتا ہے چلا جاتا ہے
یار کو لے کے دسمبر کبھی آیا ہی نہیں
یہ بھی کم بخت جلاتا ہے چلا جاتا ہے
رات کے پچھلے پہر کوئی تو دشمن میرا
میری دیوار گراتا ہے چلا جاتا ہے
فاتحہ پڑھنے مری قبر پہ کب آیا ہے
وہ تو بس پھول چراتا ہے چلا جاتا ہے
اس کا احسان ہے باقرؔ اسے فرصت ہو تو
اک نظر چہرہ دکھاتا ہے چلا جاتا ہے