غلط فہمی کا جواب
Poet: Ishraq jamal Ashar Chishti By: Ishraq jamal Ashar Chishti, Dubai- U.A.Eوہ سمجھتا ہے کہ ایام کی رفتار کیساتھ
وقت کی گرد تلے ذہن سے خاکہ اسکا
اتنا مٹ جائیگا پھر اسکے خدو خال کو میں
لاکھ چاہوں کا مگر جوڑ نہیں پاؤنگا
اور پھر اپنی شکشت خوردو حسرت کو مٹانے کے لیئے
اسکو ناکام محبت کی کہانی کہہ کر
اسکی چاہت کو جوانی کی روانی کہہ کر
اسکی نسبت کو حماقت و نادانی کہہ کر
پھر نئے پھول کی خوشبو سے بسا کر آنگن
ریشمی زلفوں کی چھاؤں تلے سوجاؤنگا
لیکن اسکو یہ بتانا ہے بہرحال مجھے
مجھکو کم ظرف سمجھنا تیری نادانی ہے
یہ الگ بات کہ تو خود ہی بھلا دے مجھ کو
تجھ کو اب دل سے بھلانا مجھے منظور نہیں
وقت ثابت یہ کریگا کہ میرے بارے میں
تو نے جو سوچ رکھی تھی وہ غلط تھی یا صحیح
تیری یادیں، تیری باتیں میرا سرمایہ ہیں
زندگی کی یہ کڑی دھوپ کا اک سائہ ہیں
ساتھ ہی مجھ کو خبر ہے کہ ہمیشہ کی طرح
میرے پھیلے ہوئے دامن کا مقدر ہونگے
حسرت و یاس کے نوحے و لہو کے آنسو
مجھ کو قسمت سے شکایت ہے نہ قدرت سے گلہ
میں تو راصی ہوں مقدر کے لکھے پر اپنے
لیکن اتنی یہ گزارش ہے خدا سے میری
جب مجھے موت کی وادی میں دھکیلے جو قضاء
تیرا چہرہ میری نظروں میں بسا رہنے دے
عشق کے زخم سے اس دل کو بسا رہنے دے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔







