غم تغافل کچھ استقلال کرتا تو کیا ہوتا
وہ محاسب اپنے بے مروتیں گنتا تو کیا ہوتا
راستبازی کا جرم بھی صاف گو ہو جاتا ہے
منہ گھماکر بھی اک بات سنتا تو کیا ہوتا
مانتے ہیں کہ استعداد میں وہ اوپر ٹھہرا مگر
عزت کا قلیل جو کبھی ہار مانتا تو کیا ہوتا
تیرا جو مقام ستون کی چوٹی ہے ابکہ
پھر خیال پانے کا دل سے جاتا تو کیا ہوتا
پتہ ہے میری چوکھٹ پہ انجام بد کھڑا
کھلے دروازے سے ہی خوف لگتا تو کیا ہوتا
اقتضائے میعاد سے جو بکھرا ہے آج سنتوشؔ
تھوڑا سمٹنے کی کوشش کرتا تو کیا ہوتا