غم حیات سی کچھ پل چرا نہیں سکتے
ارادتاً بھی کبھی مسکرا نہیں سکتے
وہ سج سنور کے ابھی مسکرا کے دیکھیں گے
قسم یہ کھائی ہے بجلی گرا نہیں سکتے
ابھی جو لگتے ہیں مصروف دنیا داری میں
ذرا ہی دیر میں نظریں بچا نہیں سکتے
ملے گا کوئی چاہنے والا -جاننے کے لئے
وہ اپنے ہاتھ میں مہندی لگا نہیں سکتے
نہ روک پائے گا دیدار یار سے کوئی
زمانے بھر کو حسن ہم دکھا نہیں سکتے
سنا ہے تیرے بھی دل میں امنگ جاگی ہے
خبر ہے ساری تو چاہے نہ بتانہیں سکتے
سخن کا شہر رفیقوں کی یہ حسیں محفل
رہے گا یاد یہ وشمہ بھلا نہیں سکتے