غم سے نجات کی جو تدبیر سوچتا ہوں
وحشت کا ایک سلسلہ ہمہ گیر سوچتا ہوں
چپ چاپ آنکھ سے جو دل میں اتر گیا ہے
اُس بے زبان خواب کی تعبیر سوچتا ہوں
کاٹے ہیں کس نے پر میرے اِس نوبہار میں
باندھی ہے کس نے پاوٴں میں زنجیر سوچتا ہوں
دل زار زار روۓ ، روح کانپنے لگے
قاسم کبھی جو عشق کی تعزیر سوچتا ہوں