اسکی خواہش پہ قلم تھام کے بیٹھا ہوں مگر
دل مچلتا ہے اسے اب میں سنبھالوں کیسے
آج تک دل میں جو جذبات چھپا رکھے تھے
انکو الفاظ کی صورت بھلا ڈھالوں کیسے
دور رہ کر بھی جو نزدیک رہا ہے میرے
یہ حسین راز بھلا سب کو بتادوں کیسے
اسکا دیدار میری روح کو جلا بخشے ہے
اسکا یہ نقش بھلا دل سے مٹادوں کیسے
وہ رگ و پئے میں رچا ہے میری سانسوں کی طرح
کسطرح دل سے میں اب اسکو نکالوں کیسے
راہ تک تک کے جو پتھرا سی گئیں ہیں آنکھیں
اسکی آمد پہ اشہر انکو سلا دوں کیسے