غم وفا کو پس پشت ڈالنا ہوگا
کھٹک رہا ہے جو کانٹا نکالنا ہوگا
فقیر عشق ہوں کچھ دے کے ٹالنا ہوگا
بس اک نگاہ کا سکہ اچھالنا ہوگا
سوال دوستو عظمت کا ہے سروں کا نہیں
ہمیں وقار کا پرچم سنبھالنا ہوگا
غضب کی پیاس لگی سامنا سراب کا ہے
سو ریگ صحرا سے پانی نکالنا ہوگا
اسے بتاؤ کہ فاقہ ہے آج اپنا بھی
مگر فقیر کو عزت سے ٹالنا ہوگا
یہ انتظار سلامت رہے وہ آئے گا
مگر ہے شرط کہ دل کو سنبھالنا ہوگا
تمہارے دل کی زمیں جل چکی مگر اعجازؔ
اسی سے نخل محبت نکالنا ہوگا