اپنے غموں کی داستاں میں نم رہتا ہوں
آنکھوں کے سیلاب میں ڈوبتا رہتا ہوں
خشک نہ ہو سکیں اب تک میری آنکھیں
کالے بادل کی طرح روز برستا رہتا ہوں
اکتا گیا ہوں اس غم بھری زندگی سے
خود ہی خود سے لڑتا رہتا ہوں
سنتا نہیں کوئی میری آہ و پکار
اندر ہی اندر سے کُرتا رہتا ہوں
آئے گا وہ کب مجھے نجات دینےامیل
اکثر میں اپنے مسیحا سے پوچھتا رہتا ہوں