غمِ اُلفت میں اشکوں کوبرسنے دو
ہماری آنکھ کے ساغرچھلکنے دو
نہیں حاجت خِرد تک رہنمائی کی
مجھے شہرِتمنّامیں بھٹکنے دو
میں سوزِعشق کی دولت پہ نازاں ہوں
مری دولت مرے ہی پاس رہنے دو
ہمارادم لبوں پرہے مگرواں سے
پیام آیا"ہمیں تھوڑاسنورنے دو"
سناہے عشق ہے اک آگ کادریا
مجھے ہرموج کے اندراترنے دو
ہوامیں ریشمی آنچل کولہراکر
جہانِ دل کے بام ودَرمہکنے دو
بجھادوآگ نفرت کی اے انسانو
جہاں میں پیارکے غنچے چٹکنے دو
بڑا پُرلُطف اسکی دیدکامنظر
دیارِ یارمیں کچھ دیررہنے دو
رُخِ روشن سے زلفوں کی گھٹاؤں کو
ہٹاکرصبح کاسورج چمکنے دو
چمکتے موتیوں کی مثل لگتی ہے
گلابی پتیوں پہ اوس پڑنے دو
چراغِ آگہی روشن کرو صفدر
ہمیں اس قیدِ ظلمت سے نکلنے دو