غمِ حیات میں ڈوبے تو پھر مرتے چلے
یادوں میں اس کی جی کے ہم گزرتے چلے
تنہائی کا عالم ہےاور دلِ ناداں
کرے تو کیسے کرے اور کیا وہ کرتے چلے؟
محفلِ یار میں ممکن ہیں وہ ملیں گے ہمیں
گلہ بھلا کے خوشی میں ہی کچھ سنورتے چلے
مہ خانہ جو دیکھا قدم اکھڑنے لگے
یادوں کی جام پی کے ہم گزرتے چلے
میری آنکھوں میں سمندر سا امڈ آیا تھا
پڑے جو سجدے میں جاکر ہم بکھرتے چلے
میرا وجود تو اس مہہ جبیں سے ہے احسن
نگاہءِ انس جو پڑجائے ہم نکھرنے چلے