فاصلوں کے یہ سلسلے نہ تم نہ ہم مٹا سکے
ہم تم تک نہ پہنچ سکے نہ تم معیار اپنے گرا سکے
وقت تھا کہ گزر گیا لو زخم بھی ذرا سل گیا
تیرا نام مگر ستم گر ہم آج تک نہ بھلا سکے
خاکستر میری سوچ کو کر گئے آلاؤ میری روح کے
محسوس تو بھی کرے کبھی کاش تو بھی خود کو جلا سکے
تیری اداؤں کی نذر صنم جان و دل جس کا ہوا
اس سے نظر ملا کبھی تجھے حال اپنا پڑھا سکے
کوئی دعا ہو ایسی میرے ہم نشیں کوئی دوا ایسی میرے طبیب بھی
میرے راستوں کے سلسلے جو میری منزلوں سے ملا سکے
اس محبت میں عروج کہاں اس وفا میں بھلا سرور کہاں
ڈوب کر جس میں کوئی نہ خود کو کبھی گنوا سکے
ایسا عنبر اہل ء ظرف کوئی اور صاحب ء کردار کہاں
ہم سے اہل ء دل سے جو جان و جگر سے نبھا سکے