فتورِ دشتِ فلک حبس دُور کیسے ہو
مرے جنوں کا ہوا کو شعور کیسے ہو
کیا ہے عالمِ امکاں سے لا مکاں کا سفر
خطِ جبینِ مقدر عبور کیسے ہو
وہ جسکے دن میں ھی تاریکیوں کے سُورج ہوں
اُس آسمان کی راتوں میں نُور کیسے ہو
زمینِ جاں کو جہاں شور کھوکھلا کر دے
زمیں پہ بُور ہو ، پیڑوں پہ بُور کیسے ہو
جو بکھرے خوشبوئے جاں آئینہ ء حرف پہ تو
غزل سے جانِ غزل پھر ستُور کیسے ہو
رگوں میں دوڑے یقیں اُسکا صورتِ احساس
تو اپنی ہستی کا پھر کم غرور کیسے ہو
نظر اُجالے کی پہچان سے ہُوئی قاصر
تو روشنی کا مری جاں قصُور کیسے ہو
میں انتظار کے لمحوں کا کرب بُھول گیا
جو ہنس کے پُوچھا کسی نے، حضُور کیسے ہو!
بجُز ترے کوئی خُلدِ خیال ہی میں نہیں
ترے بِنا، مری آنکھوں میں حُور کیسے ہو
خیالِ وَرۡد ہے قِرطاسِ باد پر رقصاں
حسیں مہک بھلا بین السطُور کیسے ہو
وَرۡدبزمی