فرزانے کیا جانیں معیارِ وفا کیا ہے
پروانوں کی طرح بھی کوئی کبھی مٹاہے
وہ کیسے بزمِ جاناں میں آ بھی تو سکے گا
ہوش و خرد کے تابع جو کوئی ہو گیا ہے
راہِ وفا میں اس کے نہ ہو سکے برابر
سب کچھ لٹا کے جس نے دردِ جگر لیا ہے
ہوجائے خشک آنسو طغیانی نہ تو جائے
جس نے بھی تو محبت کا ہی مزہ چکھا ہے
آساں نہیں ہے کوئی دل میں سما ہی جائے
دل میں کسی بھی اور کا قبضہ ہی تو جما ہے
اپنا قدم کسی نے راہِ وفا میں رکھا
جو درد بھی ملا وہ راحت ہی تو دیا ہے
یہ اثر نے ہے دیکھا کہ لوگوں نے تو یوں ہی
اہلِ وفا میں شامل بس نام کرلیا ہے