فرصتوں میں بھی یاد کے زمانے گئے
محبتوں کے سبھی مراسم پرانے گئے.
لٹا آۓ متاع ء دل و جان سبھی
ہم وفا کے جو پیما نبھانے گئے
ترک ء تعلق ہی سہی اب کے مگر
اس کے کوچے ذرا خود کو بہلانے گئے
خود فراموشی بھی کار گر نہ ہوئی
کئ بار ہم تیرے نقش مٹانے گئے
اس سے ملنا اب ممکن بھی کہاں
ہم تو بس خود کو رولانے گئے
در ء الفت پہ ضروری تھی اک بار صد
ہم تو کئ بار ہاتھ پھیلانے گئے
اس راہ پہ اک تم ہی نہیں عنبر
جتنے بھی چلے جاں سے دیوانے گئے