اے کاش وقت آئے کہ تجھ سے ملنا بہانہ ہو
تجھے مل کر بتانا ہو اور یہ گیت گنگنانا ہو
چمن میں آس بلبل کو، ہمیں بھی آس ہوتجھ سے
کہ شجر میں آشیانہ ہو، تیرے دل میں ٹھکانا ہو
جرم اتنا ہوا مجھ سے، تجھے دل میں بسایا ہے
ستم گر اتنا بتا مجھ کو کہ اب کتنا گڑگڑانا ہو
تیری باتوں کی لذت سے وہ رس گھول کر ساقی
مئے چلتی رہی شب بھر اور کتنا پینا پلانا ہو
جو پی ہاتھوں سے تیرے، وہ مئے اتری نہیں ہم کو
کوئی تدبیر ہی بتلاؤ، اب بھلا کتنا ستانہ ہو
مجھے تم موت دے دینا، دروغ گوئی اگر پاؤ
تیری یادوں میں رہتے ہم، چاہے کوئی زمانہ ہو
محسن موت ہی مانگو، نہ اس سے کم کچھ بھی
کہ یہی راہ واحد ہے، اگر ان کو بھلانا ہو