فریب تو خوبرُو تھا لیکن نَدامت ہوگئی
محبت کے کامل کھیل میں شرارت ہوگئی
یہی رومان کیا دھوم مچانے کے لائق تھا؟
مانگا انصاف کہ مجھ پہ رائج عدالت ہوگئی
ہم اپنی دل تک تو کب کی نثار کردی تھی
جان لٹانے کے فہم میں یہ فراست ہوگئی
اگر اک بار اپنی تشنگی پہ غور کیا جائے
تو ساکھ پر بڑہ کر یہ زندگی ذلالت ہوگئی
اب اس گذر پر باہم کس کو لے چلیں گے
ہر چہرہ درازی سلسلہ جیسے مزاحمت ہوگئی
چلو یہ عدول حکمی تسکین سے رہے گی پاس
کچھ تو سیکھے! جن کی افضل عنایت ہوگئی