فریبِ ذیست سے ہستی نکال لایا ہوں
میں اک فرات سے کشتی نکال لایا ہوں
ہر ایک شخص وہاں مسکرا کے ملتا تھا
میں اس فساد سے بستی نکال لایا ہوں
یہ میرے گرد و نواح میں نمی کاہے موسم
کسی کی آنکھ برستی نکال لایا ہوں
مرے نصیب میں ٹھہری نہیں وصال کی رُت
کہیں سے عمر ترستی نکال لایا ہوں
نجانے کس لئے زخموں سے یوں لگاؤ ہے
کہاں سے درد پرستی نکال لایا ہوں
سنپولیے مرے پیچھے پڑے ہیں بِین لیے
میں ایک ناگ کی مستی نکال لایا ہوں